محترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم!عبقری رسالہ میں موبائل فون کےغلط استعمال کے نقصانات کے حوالہ سے تحریر پڑھی۔ذاتی تجربے کی بنیاد پر بتانا چاہوں گی کہ جدید دور کا یہ بہت بڑا المیہ ہے۔بچے ‘جوان ‘خواتین و مرد تقریباً ہر طبقہ کسی نہ کسی طرح اس سے متاثر ہے۔جہاں موبائل فون کی وجہ سے بہت سی سہولیات میسر آئی ہیں وہاں اس کے بہت سے منفی پہلو بھی ہیں جس کا شکار اکثر نوجوان ہورہے ہیں۔اس ضمن میں اپنی قریبی دوست کا واقعہ تحریر کر رہی ہوں۔میری بچپن کی ایک سہیلی جو نہایت شریف ‘ نیک اور اس کے علاوہ ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ہم اکھٹے سکول پڑھے اور پھر کالج میں بھی داخلہ لیا۔پڑھائی کے دوران اکثر رابطہ کے لئے موبائل کی ضرورت پیش آتی مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے پاس موبائل فون نہ رکھا۔چند سال پہلے جب کرونا کی وباء آئی تو آن لائن کلاسز شروع ہوئیں۔مجبوراً اسے بھی اپنے پاس موبائل رکھنا پڑا۔ہفتہ میں صرف تین دن کلاسز ہوتی تھیں۔ایک دن اسے کسی انجان نمبر سے مسلسل کال آنا شروع ہوئی‘آخر کال اٹھائی تو معلوم ہوا کسی انجان مرد کی آواز تھی جس کے بعد فوراً کال کاٹ دی۔اگلے دن جب ہماری ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ روداد سنائی تو میں نے انہیں سمجھایا کہ ایسی کالز کا بہترحل یہی ہے کہ انہیں اِگنور کر دیا جائے۔
چھوٹی سے غلطی لاعلاج روگ کا ذریعہ بن گئی
تقریباً ایک ہفتہ بعد جب میری دوبارہ ملاقات ہوئی تو اس بار اس دوست کا چہرہ اداس اور بوجھل سا تھا۔میں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے ٹال دیا ‘میں نے بھی زیادہ توجہ نہ کی۔امتحانات قریب تھے‘اس لئے میں نے اپنی توجہ پڑھائی میں بڑھا دی۔حالات بدلنا شروع ہوئے اور تقریباًتین ماہ بعد کالج دوبارہ کھلا تو ہماری ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی۔اس دوران چند بار رابطہ کرنے کی بھی کوشش کی تھی مگر اس نے ٹھیک طرح سے بات نہ کی۔کالج میں جب وہ ملی تو اس کی صحت خراب لگ رہی تھی اور ذہنی طور پر بھی کسی سخت پریشانی کا شکار لگ رہی تھی۔آخر جب میں نے اصرار کیا تو اس نے رونا شروع کر دیا۔پھر اس نے اپنے ساری روداد سنائی کہ جس انجان نمبر سے کال آئی تھی اس نے میسیج کے ذریعے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ایک دن میں نے بھی میسج کا جواب دیا جس کے بعد بات چیت شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے آگے جا پہنچی۔اس شخص نے کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ‘مجھ سے وعدے کیے کہ ہر دکھ سکھ میں میرا ساتھ دے گا۔میں اس کی باتوں میں آگئی۔
گھر والوں کو بھی دھوکے میں رکھا
موبائل پڑھائی کے لئے لیا تھا مگر اس کا غلط استعمال ہونے لگا۔اس شخص نے اپنے گھر والوں سے بھی فون پر بات کروائی جس سے مجھے کچھ تسلی ہو گئی۔گھر والے یہی سمجھتے رہے کہ میں شاید پڑھائی کر رہی ہوں اور اس متعلق ہی موبائل کا استعمال کر رہی ہوں۔ گھر والوں کو دھوکے میں رکھا جس کا نقصان یہ ہوا کہ زندگی برباد کر بیٹھی۔اب جا کر معلوم ہوا کہ وہ شخص شادی شدہ ہے۔اب وہ شادی کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ‘مصروفیت کا بہانہ بنا کر نہ ہی اب موبائل پر بات کرتا ہے ۔اگر مسلسل میسیج یا فون کروں تو بہت بدتمیزی کرتا ہے۔آخر وہ لڑکی اس شخص کے روگ میں مبتلا ہوگئی‘پڑھائی میں بھی ناکامی ہوئی اور سب کچھ گنوا بیٹھی۔اب وہ سارا دن ایسے روتی ہے جیسے کسی کے مرجانے پر کوئی روتا ہے‘بس اکثر مجھ سے یہی بات کہتی ہے کہ کاش میں موبائل استعمال نہ کرتی اور نہ ہی میری زندگی ویران اور برباد ہوتی۔
قارئین میری اس تحریر کا مقصد عبقری کے ذریعے نوجوان نسل کو موبائل فون کے غلط استعمال کے نقصانات سے آگاہ کرنا اور انہیں روکنا ہے تاکہ کسی کی زندگی اجڑنے سے بچ جائے۔(ب‘فیصل آ باد)
موبائل اور میری معصوم دوست کی بربادیمحترم شیخ الوظائف صاحب السلام علیکم!عبقری رسالہ میں موبائل فون کےغلط استعمال کے نقصانات کے حوالہ سے تحریر پڑھی۔ذاتی تجربے کی بنیاد پر بتانا چاہوں گی کہ جدید دور کا یہ بہت بڑا المیہ ہے۔بچے ‘جوان ‘خواتین و مرد تقریباً ہر طبقہ کسی نہ کسی طرح اس سے متاثر ہے۔جہاں موبائل فون کی وجہ سے بہت سی سہولیات میسر آئی ہیں وہاں اس کے بہت سے منفی پہلو بھی ہیں جس کا شکار اکثر نوجوان ہورہے ہیں۔اس ضمن میں اپنی قریبی دوست کا واقعہ تحریر کر رہی ہوں۔میری بچپن کی ایک سہیلی جو نہایت شریف ‘ نیک اور اس کے علاوہ ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ہم اکھٹے سکول پڑھے اور پھر کالج میں بھی داخلہ لیا۔پڑھائی کے دوران اکثر رابطہ کے لئے موبائل کی ضرورت پیش آتی مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے پاس موبائل فون نہ رکھا۔چند سال پہلے جب کرونا کی وباء آئی تو آن لائن کلاسز شروع ہوئیں۔مجبوراً اسے بھی اپنے پاس موبائل رکھنا پڑا۔ہفتہ میں صرف تین دن کلاسز ہوتی تھیں۔ایک دن اسے کسی انجان نمبر سے مسلسل کال آنا شروع ہوئی‘آخر کال اٹھائی تو معلوم ہوا کسی انجان مرد کی آواز تھی جس کے بعد فوراً کال کاٹ دی۔اگلے دن جب ہماری ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ روداد سنائی تو میں نے انہیں سمجھایا کہ ایسی کالز کا بہترحل یہی ہے کہ انہیں اِگنور کر دیا جائے۔چھوٹی سے غلطی لاعلاج روگ کا ذریعہ بن گئیتقریباً ایک ہفتہ بعد جب میری دوبارہ ملاقات ہوئی تو اس بار اس دوست کا چہرہ اداس اور بوجھل سا تھا۔میں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے ٹال دیا ‘میں نے بھی زیادہ توجہ نہ کی۔امتحانات قریب تھے‘اس لئے میں نے اپنی توجہ پڑھائی میں بڑھا دی۔حالات بدلنا شروع ہوئے اور تقریباًتین ماہ بعد کالج دوبارہ کھلا تو ہماری ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی۔اس دوران چند بار رابطہ کرنے کی بھی کوشش کی تھی مگر اس نے ٹھیک طرح سے بات نہ کی۔کالج میں جب وہ ملی تو اس کی صحت خراب لگ رہی تھی اور ذہنی طور پر بھی کسی سخت پریشانی کا شکار لگ رہی تھی۔آخر جب میں نے اصرار کیا تو اس نے رونا شروع کر دیا۔پھر اس نے اپنے ساری روداد سنائی کہ جس انجان نمبر سے کال آئی تھی اس نے میسیج کے ذریعے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ایک دن میں نے بھی میسج کا جواب دیا جس کے بعد بات چیت شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے آگے جا پہنچی۔اس شخص نے کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ‘مجھ سے وعدے کیے کہ ہر دکھ سکھ میں میرا ساتھ دے گا۔میں اس کی باتوں میں آگئی۔ گھر والوں کو بھی دھوکے میں رکھاموبائل پڑھائی کے لئے لیا تھا مگر اس کا غلط استعمال ہونے لگا۔اس شخص نے اپنے گھر والوں سے بھی فون پر بات کروائی جس سے مجھے کچھ تسلی ہو گئی۔گھر والے یہی سمجھتے رہے کہ میں شاید پڑھائی کر رہی ہوں اور اس متعلق ہی موبائل کا استعمال کر رہی ہوں۔ گھر والوں کو دھوکے میں رکھا جس کا نقصان یہ ہوا کہ زندگی برباد کر بیٹھی۔اب جا کر معلوم ہوا کہ وہ شخص شادی شدہ ہے۔اب وہ شادی کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ‘مصروفیت کا بہانہ بنا کر نہ ہی اب موبائل پر بات کرتا ہے ۔اگر مسلسل میسیج یا فون کروں تو بہت بدتمیزی کرتا ہے۔آخر وہ لڑکی اس شخص کے روگ میں مبتلا ہوگئی‘پڑھائی میں بھی ناکامی ہوئی اور سب کچھ گنوا بیٹھی۔اب وہ سارا دن ایسے روتی ہے جیسے کسی کے مرجانے پر کوئی روتا ہے‘بس اکثر مجھ سے یہی بات کہتی ہے کہ کاش میں موبائل استعمال نہ کرتی اور نہ ہی میری زندگی ویران اور برباد ہوتی۔قارئین میری اس تحریر کا مقصد عبقری کے ذریعے نوجوان نسل کو موبائل فون کے غلط استعمال کے نقصانات سے آگاہ کرنا اور انہیں روکنا ہے تاکہ کسی کی زندگی اجڑنے سے بچ جائے۔(ب‘فیصل آ باد)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں